Saturday, July 17, 2010

پہلی تجرباتی پوسٹ

اگلے وقتوں میں، کہ جب لکھنا پڑھنا اتنا عام نہ تھا، کہانیاں زبانی سنائی جاتی تھیں اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی تھیں۔ کہانی سنانے والوں کو داستان گو کہا جاتا تھا۔ لوگ ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور یہ اپنی لفاظی، آواز کے اتار چڑھاوّ، اور اداکاری کے ساتھ کہانی کو اسطرح بیان کرتے تھے کہ سننے والے کھوجاتے تھے۔

کہانی سننے کا شوق مجھے تب پیدا ہوا جب میں نے بچپن میں کیسٹ کہانی سنی۔ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور چند ایک اور اداروں کی مدد سے ریڈیو پاکستان کے نامور صداکاروں کی آواز میں ریکارڈ کی گئی بچوں کی یہ کہانیاں انتہائی دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔ ان میں ٹارزن کی کہانی، الہ دین، سند باد جہازی کی مہمات، اور دنیا بھر کے ادب سے منتخب کہانیاں شامل ہوا کرتی تھیں۔ میں اس سے پہلے ہی کتابیں پڑھنے لگا تھا۔ تب اگر آپ مجھ سے پوچھتے کہ کہانی سننے اور پڑھنے میں کیا فرق ہوتا ہے تو مجھے اس فرق کا احساس تو ہوتا مگر میں اسے بالکل بیان نہ کرپاتا۔

بعد میں یہ سلسلہ بند ہوگیا کیسٹ کہانیاں آنا بند ہوگئیں اور میں انسپکٹر جمشید، عمران سیریز، سسپنس ڈائجسٹ سے ہوتا ہوا کلاسیکی اردو ادب تک پہنچ چکا تھا۔ ٹین ایج میں اپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا بہت بڑی ہے اور آپ جلد از جلد نئے سے نیا تجربہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سب کچھ کرلینا چاہتے ہیں اور ہر چیز پر اپنی دسترس چاہتے ہیں۔ اس دوران آپ سب سے پہلے تو بچپن سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں کیونکہ نئے تجربات کی راہ میں آپ اسے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ بہت سالوں بعد جاکر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کو زندگی سے کیا چاہئے اور کیا کچھ ہے جو آپ کی دسترس میں نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔